اُردو ہمیشہ سرسبز رہے گی۔۔۔
2013-12-06 T 19:08:44 GMT
وہاں گہماگہمی تھی۔ مسرت سے بھرپور۔ سانس لیتی ہوئی۔ زندگی کے مانند زندہ۔ بھرپور گہماگہمی۔ چار روز تک میلہ لگا رہا شہر کراچی میں۔ ایسا میلہ، جس کے چوکھے رنگوں نے بے امنی کے شکار اِس شہر کے باسیوں کو اپنے حصار میں لے لیا۔ اُنھیں گرویدہ بنا لیا۔ یہاں آرٹس کونسل کراچی کی چھٹی عالمی اردو کانفرنس کا تذکرہ ہورہا ہے، جو چار روز تک جارہی رہی۔ نومبر کے اواخر میں شروع ہونے والی اس سرگرمی کا جب اختتام ہوا، ماہ دسمبر کا آغاز ہوچکا تھا۔ اور سرگرمی میں شریک ہر شخص خود کو ہشاش بشاش محسوس کررہا تھا۔ آئیے، اِس رنگ رنگ کی سرگرمی میں شریک ہوجائیں، جسے اردو زبان قوت فراہم کر رہی ہے۔ جہاں اردو زبان سانس لے رہی تھی۔ ٭ پہلا دن اس یادگار کانفرنس کا آغاز 28 نومبر کو ہوا۔ افتتاحی اجلاس کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ تھے، جو ذرا تاخیر سے آرٹس کونسل پہنچے۔ ان کی آمد تک آڈیٹوریم کچھا کھچ بھر چکا تھا۔ مجلس صدارت کے اراکین میں نثار احمد کھوڑو، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ستیہ پال آنند، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، رضا علی عابدی، عبداﷲ حسین، مسعود اشعر، امر جلیل، پروفیسر سحر انصاری، ڈاکٹر ظفر اقبال، کشور ناہید اور امینہ سید جیسی قدآور شخصیات شامل تھیں۔ ڈاکٹر ہما میر نے نظامت کے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ استقبالیہ خطبے میں آرٹس کونسل کے صدر، احمد شاہ نے اِس تقریب کو ادیبوں اور شاعروں کا نمایندہ اجتماع قرار دیا۔ ممتاز نقاد اور دانش ور، شمیم حنفی نے اپنے خطبے میں کہا؛ اردو ایک طرز حیات کا نام ہے، اردو نے مجھے قوت پرواز عطا کی، میں اپنی کتابوں کے ذریعے پاکستان پہنچا۔ اُس موقع پر اردو کے ممتازافسانہ نگار، انتظار حسین نے کہا؛ اردو پاکستان کی نہیںبرصغیر کی زبان ہے، اس کی ترقی و ترویج میں ہندوستانی تخلیق کاروں کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ آرٹس کونسل کی اس تقریب کے ثمرات دیگر صوبوں میں بھی پہنچ رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ، قائم علی شاہ نے اپنی تقریر اس نوع کی سرگرمیوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ قلم کار اور دانش وروں کو امن و امان کی بحالی کے کردار ادا کرنا ہوگا، ملک کو مایوسی سے نکال کر ترقی کی راہ پر گام زن کرنا ہوگا۔ اُنھوں نے اس کانفرنس کو قومی یک جہتی کی علامت قرار دیا، اور آرٹس کونسل کے لیے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا گیا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد کتابوں کی رسم اجرا منعقد ہوئی۔ ممتاز شاعر، ادیب اور صحافی، احفاظ الرحمان کی نظموں کے مجموعے ’’زندہ ہی زندگی‘‘ کے بارے میں فہمیدہ ریاض، زاہد حنا، شمیم حنفی اور احمد شاہ نے اظہار کیا۔ شمیم حنفی نے شاعر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ احفاظ الرحمان کے قلم نے جھکنا اور بکنا نہیں سیکھا۔ فہمیدہ ریاض نے احفاظ الرحمان کی شاعری کو اجتماعی آرزوؤں کی ترجمان قرار دیا۔ بعد میں احفاظ الرحمان نے اپنی چند نظمیں پیش کیں، جنھیں حاضرین نے بھرپور داد دی۔ اسی اجلاس میں میر کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل افضال احمد سید کی کتاب پر بھی بات ہوئی۔ ساتھ ہی آصف فرخی کی کتاب ’’انتخاب غلام عباس‘‘ اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر کی کتاب ’’نوآبادیات: اردو کے تناظر‘‘ میں کی رونمائی ہوئی۔ ڈاکٹر انوار احمد، امینہ سید، مسعود اشعر نے دیگر نے اس سیشن میں اظہار خیال کیا۔ عشائیے کے بعد اشعار کی حسین محفل جمی۔ ’’نئی نسل مشاعرہ‘‘ منعقد ہوا، جس کی صدارت معروف شاعر احمد نوید نے کی۔ ممتاز شاعر، ظہور الاسلام مہمان خصوصی تھی۔ نظامت کے فرائض اوج کمال اور سلمان صدیقی نے انجام دیے۔ نئی نسل کے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا، اور خوب داد بٹوری۔ یوں پہلے دن اپنے اختتام کو پہنچا۔ ٭ دوسرا دن 29 نومبر کی صبح، ایک روشن صبح تھی۔ پہلے اجلاس میں ’’معاصر شعری رجحانات‘‘ جیسا اہم موضوع زیربحث آیا۔ اس بار نظامت کی ذمے داری خالد معین کے کاندھوں پر تھی۔ صدارت جناب ستیہ پال آنند نے کی۔ اس سیشن میں ڈاکٹر خورشید رضوی، پروفیسر سحر انصاری، پروفیسر شاہدہ حسن، خواجہ رضی حیدر اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے مقالات پڑھے۔ سیشن کے صدر، ڈاکٹر ستیہ پال آند نے کہا کہ کہ شاعری، عصری رجحانات سے پیدا ہوتی ہے، نسائی شاعری کراچی کی پیداوار تھی، جس نے ہندوستان پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ دوسرا اجلاس ’’یادرفتگاں‘‘، یادگار ثابت ہوا۔ اس اجلاس کی نظامت ڈاکٹر جمال نقوی نے کی۔ صدارت کا منصب رضا علی عابدی نے سنبھالا۔ اِس اہم سیشن میں ڈاکٹر ظفراقبال نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی بابت، پروفیسر جاذب قریشی نے شفیع عقیل سے متعلق، ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ڈاکٹر محمد علی صدیقی، صبا اکرام نے محمود واجد، ڈاکٹر ایوب شیخ نے سراج الحق میمن، ملاحت اعوان نے شبنم شکیل اور ضیا محی الدین اور ڈاکٹر نعمان الحق نے دائود رہبر کے فن اور شخصیت سے متعلق اظہارخیال کیا۔ اس موقع پررضا علی عابدی نے کہا کہ اسلاف کو یاد رکھنا زندہ قوموں کی پہچان ہے۔ اگلا سیشن ممتاز تخلیق کار، مستنصر حسین تارڑ سے منسوب تھا۔ ان کے اعتراف کمال میں منعقد ہونے والی تقریب میں عبداﷲ حسین اور رضا علی عابدی نے اپنے مخصوص انداز میں گفت گو کی۔ میزبان ڈاکٹر ضیا الحسن تھے۔ اُس موقع پر مستنصر حسین تارڑ نے عبداﷲ حسین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُنھیں کھڑے ہو کر خراج تحسین پیش کیا۔ اِس سیشن میں ہونے والی ادبی گفت گو میں مزاح کا عنصر بھی تھا، جس سے حاضرین خوب محظوظ ہوئے۔ اگلے اجلاس میں اخلاق احمد کے افسانوی مجموعے ’’ابھی کچھ دیر باقی ہے‘‘ اور اے خیام کے ناول ’’سراب منزل‘‘ کی تقریب رونمائی ہوئی۔ اپنی تقریر میں مستنصر حسین تارڑ نے اخلاق احمد کو مشاہد ے کا آدمی قرار دیا۔ وسعت اﷲ خان نے صاحب کتاب کی بابت اظہار خیال کیا۔ اس موقع پر اخلاق احمد نے کہا کہ وہ دیگر افسانہ نگاروں کے مانند انسان نامی معمے کو حل کرنے کی جستجو میں ہیں۔ اے خیام کے ناول ’’سراب منزل‘‘ کی تعارفی تقریب کی صدارت ڈاکٹر خورشید رضوی نے کی۔ ممتاز شاعرہ صبا اکرام نے ناول نگار کے فن و شخصیت سے متعلق اظہار خیال کیا، ناول نگار، اے خیام نے مقررین اور آرٹس کونسل کا شکریہ ادا کیا۔ سیشن کی نظامت کے فرائض اوج کمال نے انجام دیے۔ دوسرے دن کے اختتام پر فلمی موسیقی کے سو سال مکمل ہونے پر محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر سیاست دانوں، فن کاروں، ادیبوں اور شاعروں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ سلمان علوی، نعیم عزیز، فلورنس تھومس،ذرین حیدر، عمیرہ کنول، کامران، امیر علی، سویرا علی، سہیل، قیام خرم، ماہ رخ خان، اسما احمد، فتح عباس، عمران نعیم و دیگر نے اپنی آواز کا جادو جگایا، اور ماضی اور حال کے معروف گلوکاروں کو ٹریبیویٹ پیش کیا۔ ٭ تیسرا دن تیسرے دن منعقد ہونے والے پہلے سیشن کا موضوع ’’اردو ادب: جدید رجحانات کے تناظر میں‘‘ تھا۔ صدارت ستیہ پال آنند نے کی۔ اپنی تقریر میں انھوںنے ترجمے کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی، لفظ بہ لفظ ترجمے کو بے معنی قرار دیا، اور مقررین کے خیالات کو سراہا۔ اس سیشن میں نجیہ عارف نے ’’جدید ادب کی عالمی جہت‘‘ عنبریں حسیب عنبر نے ’’جدید غزل 21 ویں صدی میں‘‘ اور صدف مرزا نے جدید ادب میں ’’ترجمے کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ مجلس صدارت میں ڈاکٹر شمیم حنفی اور اسد محمد خان شامل تھے۔ ڈاکٹر شمیم حنفی نے کہا؛ ہم نے تراجم کی جو روایات قائم کیں، انھیں مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگلا سیشن ’’اردو اور سندھی کے تاریخی و لسانی رابطے‘‘ کے موضوع پر تھا۔ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سندھی کے ممتاز ادیب اور شاعر، امداد حسینی نے کہا ہے کہ اردو اور سندھی دونوں مجھے اپنی ذات کے حصے لگتے ہیں، لکھنے والے ٹوٹے ہوئے تاروں کو جوڑتے رہے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زبانوں کو قریب لانے والوں میں سے بن جائیں۔ سید مظہر جمیل نے اس موضوع کو انتہائی اہم قرار دیا، انھوںنے سندھی اور اردو کے رشتے پر بات کی۔ ڈاکٹر قاسم بھوگیو نے اپنی گفت گو میں کہا کہ دنیا کی کوئی زبان خالص نہیں ہے، ہر زبان میں دوسری زبان کا لفظ شامل ہے، جن لوگوں نے زبانوں کو خالص رکھا وہ زبانیں ختم ہوگئیں۔ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے موضوع پر گفت گو دلیرانہ انداز میں کی، اور حاضرین سے خوب داد وصول کی۔ انھوں نے کہا، سندھی زبان اردو کے مقابل میں زیادہ قدیم ہے، سچل سرمست کے کلام میں اردو ہندوستانی لب و لہجے میں نظر آتی ہے۔ احمد شاہ نے کہا، پاکستان کی تمام زبانیں، ہماری اپنی زبانیں ہیں، نفرت کو زبانوں کے رابطے کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔ اگلے اجلاس میں ’’ذرایع ابلاغ اور زبان کے نئے رابطے‘‘کے موضوع کا احاطہ کیا گیا۔ اس سیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے رضاعلی عابدی نے کہا، اردو بھولی بھالی زبان ہے، جسے چاہت اور محبت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، بہت سے لوگوں کی روٹی روزی اردو میڈیا سے جڑی ہے۔ احفاظ الرحمان نے اپنے مقالے میں جہاں موضوع کا بھرپور احاطہ کیا، وہاں صحافتی برادری کو اس کے فرائض اور ذمے داریاں کی بھی یاد دہانی کروایا۔ اس سیشن میں امینہ سید، ڈاکٹر طاہر مسعود، انورسن رائے، اصغر ندیم سید اور مسعود اشعر نے اظہار خیال کیا۔ نظامت کے فرائض مظہر عباس نے انجام دیے۔ اگلے سیشن کا عنوان تھا ’’بیادجالب{‘‘ تھا، جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے خود کو جالب کا شاگرد قرار دیا، اور کہا؛ جالب اور اردو کی محبت اُنھیں کانفرنس میں کھینچ لائی ہے۔ انھوں نے اگلے برس کوئٹہ میں جالب پر کانفرنس کرنے کا بھی اعلان کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر تعلیم سندھ نثار کھوڑو نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان ہمیشہ سے اکھٹے تھے،اور اکٹھے رہیں گے۔ کشور ناہید اور امجد اسلام امجد نے حبیب جالب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اور وابستہ یادیں بیان کیں، جب کہ فہمیدہ ریاض نے اپنی شاعری کے ذریعے جالب کو خراج پیش کیا۔ سیشن کی نظامت مجاہد بریلوی نے سرانجام دی۔ اگلے اجلاس میں ’’یارک شائر ادبی فورم‘‘ کی جانب سے معروف شاعرہ، فہمیدہ ریاض کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایورڈ سے نوازا گیا۔ تقریب کی نظامت فورم کی روح رواں، غزل انصاری نے کی۔ رضا علی عابدی، ڈاکٹر خورشید رضوی اور ڈاکٹر آصف فرخی نے ان کے فن سے متعلق خیالات کا اظہار کیا، اور انھیں اردو ادب کی ایک اہم شخصیت قرار دیا۔ اس موقع پر صاحب تقریب، فہمیدہ ریاض نے کہا؛ زندگی میں شدید مسائل کا سامنا رہا، طرح طرح کے الزامات لگے، مگر پزیرائی بھی ملی، جس کے لیے وہ قارئین کی ممنون ہیں۔ انھوں نے اپنے تخلیق کردہ اردو ادب کو زندگی کا سرمایہ قرار دیا۔ چھٹا اجلاس ’’زندہ کلاسیک، اداس نسلیں اور عبداﷲ حسین‘‘ کی بابت تھا۔ اس سیشن میں ڈاکٹر شمیم حنفی نے عبداﷲ حسین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اداس نسلیں کو اعلیٰ پائے کا ناول قرار دیا۔ محمد حنیف نے اداس نسلیں کو زندہ ناول کے روپ میں پیش کیا۔ احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اردو لٹریچر اور ناول نگاری میں عبداﷲ حسین کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔ آخری میں صاحب تقریب نے تمام مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ ساتویں اجلاس میں ’’کلیات عزیر حامد مدنی‘‘ کی رسم اجرا ہوئی، جسے آرٹس کونسل کراچی نے شایع کیا تھا۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے اس سیشن کی صدارت کی۔ انھوں نے عزیز حامد مدنی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا، انھوں نے اپنی ساری زندگی زبان و ادب کے لیے وقف کردی تھی، اُن کی کتاب کی اشاعت میری زندگی کی بڑی آرزو تھی، جو پوری ہوگئی۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا؛ مدنی صاحب تشہیر کے قائل نہیں تھے، ان کی غزلوں کو مہدی حسن نے بھی گنگنایا۔ ماہرتعلیم ظفر سعید نے اپنی گفت گو میں کہا، عزیز حامد مدنی نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی، وہ بہترین ریاضی داں تھے۔ عشائیے کے بعد مشاعرے کی محفل جمی، جس کی نظامت اختر سعیدی نے کی۔ احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ’’کل پاکستان مشاعرہ ‘‘ کے موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر خورشید رضوی نے چھٹی عالمی کانفرنس کو ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ مشاعرے میں کشور ناہید، امجد اسلام امجد، انور شعور، صابر ظفر، لیاقت علی عاصم، شاہد ہ حسن ، ریحانہ روحی، احمد نوید، شہناز نور، شاہدہ تبسم، اختر سعیدی، راشد نور، خالد معین، خالدہ عظمیٰ، عنبریں حسیب عنبر ، محبوب ظفر، شائستہ مفتی، غزل انصاری اور عمیر علی انجم نے اپنا کلام پیش کیا، اور حاضرین سے خود داد سمیٹی۔ ٭ چوتھا دن یکم دسمبر کا دن اِس یادگار تقریب کا آخری دن تھا۔ پہلا اجلاس ’’افسانہ: ایک صدی کا سفر‘‘ جیسے اہم موضوع پر منعقد ہوا، جس کی صدارت مسعود اشعر نے کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا؛ افسانہ پڑھنے والوں کی تعداد گھٹ رہی ہے، بہت سے افسانہ نگاروں کی پہنچ پبلشروں تک نہیں، اس امر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ زاہدہ حنا نے اپنے مقالے میں اردو افسانے کا سفر اور ارتقا بڑے ہی جامع انداز میں پیش کیا۔ اخلاق احمد نے اپنی گفت گو میں کہا؛ اکیسویں صدی کے افسانہ نگار 20 ویں صدی کے افسانہ نگاروں سے زیادہ چست اور زیرک ہیں ۔ساتھ ہی اس صد ی کے افسانہ نگاروں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا ہے۔ محمد شاہد حمید نے ’’جدید افسانہ: موضوع اور اسلوب‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں جدید افسانے کی درست سمت تاحال متعین نہیں ہوسکی ہے۔ اس سیشن میں ڈاکٹر مصطفیٰ، علی حیدر ملک، ڈاکٹر آصف فرخی نے بھی بڑے ہی جامع انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اگلا سیشن ڈاکٹر جعفر احمد کی مرتب کردہ کتاب "Challanges of History Writing in South Asia" کی بابت تھا۔ نظامت کے فرائض ریاض شیخ نے انجام دیے۔ صدارت کا منصب ڈاکٹر مبارک علی نے سنبھالا۔ دہلی یونیورسٹی آف انڈیا کے سابق پروفیسر ہربنس مکھیا مہمان خصوصی تھے۔ اس سیشن سے گفت گو کرتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی نے کہا کہ تاریخ دو دھاری تلوار ہے، یہ نفرت بھی پیدا کرتی ہے، اور دوستی اور محبت بھی پروان چڑھاتی ہے، کاش تاریخ نویسی نفرت کے دائروں سے نکل کر محبت کے حصار میں آجائے۔ انھوں نے اس موقع پر ڈاکٹر جعفر احمد کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اُن سے متعلق کتاب مرتب کی۔ سید بلند سہیل ،کرامت علی، تسنیم صدیقی اور ہربنس مکھیا نے اس سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اگلے سیشن میں ضیا محی الدین کے ساتھ شام منائی گئی، جس میں حاضرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سیشن کے اختتام پر صد ر آرٹس کو نسل احمد شاہ نے ضیا ء محی الدین کو گل دستہ پیش کیا۔ اختتامی سیشن کے مہمان خصوصی اسپیکر سندھ اسمبلی، آغا سراج درانی تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا؛ ہمیں اپنی تہذیب نہیں بھولنی چاہیے، ہماری ثقافت موئن جو دڑو کی قدیم تہذیب سے جڑی ہے۔ انھوں نے آرٹس کونسل کراچی کی کوششوں کو سراہتے ہوئے خواہش ظاہر کی کہ اس نوع کی تقریبات کا اہتمام سندھ کے دیگر شہروں میں بھی کیا جائے۔ اس موقع پر متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار، حیدر عباس رضوی، فیصل سبزواری سمیت انتظار حسین، پروفیسر شمیم حنفی، رضا علی عابدی، مسعود اشعر، حسینہ معین، امینہ سید،ستیہ پال آنند، ڈاکٹرخورشید رضوی اور احمد شاہ بھی اسٹیج پر موجود تھے۔تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہما میر نے انجام دیے۔ حیدر عباس رضوی اور فیصل سبزواری نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اختتامی سیشن کے ساتھ ہی آرٹس کونسل کراچی کے تحت ہونے والی چھٹی عالمی اردو کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچی۔ چار روز تک جاری رہنے والے یہ کانفرنس، جس میں دنیا بھر سے اردو کے چاہنے والوں نے شرکت کی، اپنے پیچھے کئی حسین یادیں چھوڑ گئی، جو اس کے شرکا کی یادوں کے زخیرہ کو مہکاتی رہیں گی۔
News Source: Express News
No comments:
Post a Comment