Contact Us

Tuesday, 26 November 2013

کیا زراعت اور کاشتکاری کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں؟


کیا زراعت اور کاشتکاری کسی سیاسی جماعت کی ترجیح نہیں؟







2013-11-26 T 17:59:59 GMT

لاہور پاکستان کی معیشت زراعت کی بنیادوں پر استوار ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں کے دوران ہمارے سیاستدانوں کی بے اعتنائی کی دیمک نے ان بنیادوں کواتنا کھوکھلا کرد یا ہے کہ کسی بھی وقت معاشی ڈھانچہ زمین بوس ہوسکتا ہے۔ ہر ملک کی معیشت تین سیکٹرز پر انحصار کرتی ہے، زراعت ، صنعت اور کامرس، یہ تینوں شعبے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور کسی ایک سیکٹر میں ہونے والا نقصان دوسرے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کا67.5 فیصد دیہات میں رہتا ہے اور ان کا براہ راست تعلق زراعت سے ہے ۔ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ26 فیصد ہے جبکہ چند سال میں یہ شرح21 فیصد تک بھی جا پہنچی تھی۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1947 ء میں زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 53 فیصد کے لگ بھگ ہوا کرتا تھا۔ مختلف ادوار حکومت میں منتخب اور غیر منتخب حکمرانوں نے معیشت کو زراعت سے صنعت کی جانب منتقل کرنے کی کوشش کی لیکن نہ تو صنعت کا پہیہ دوڑ سکا اور نہ ہی کسان کا ہل تیز ہو پایا ۔’’کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا‘‘والے حالات ہمارے ان سیاستدانوں نے پیدا کیے ہیں جو الیکشن مہم میں کسانوں سے ووٹ لینے کیلئے زراعت کی ترقی کے نعرے مارتے ہیں لیکن جب اقتدار مل جاتا ہے تو ان کی ترجیحات کی فہرست میں زراعت کو آخری نمبر ملتے ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت قومی وصوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اکثریت نے باضابطہ طور پر اپنا پیشہ زراعت تحریر کیا ہوا ہے۔ پنجاب میں 72 اراکین اسمبلی کا پیشہ زراعت ہے، سندھ میں 7 اراکین نے خود کو کسان جبکہ 41 نے اپنے آپ کو وڈیرہ ڈیکلیئر کیا ہے، اسی طرح قومی اسمبلی میں بھی درجنوں اراکین نے خود کو کاشتکار بتایا ہے۔ سیاسی و نیم سیاسی مذہبی تنظیموں کا جائزہ لیں تو ان کے کسان ونگز کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نیا پاکستان اور تبدیلی لانے کی دعویدار پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی تنظیم میں کسان ونگ ہی موجود نہیں ہے اور زرعی لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے جاوید نیاز منج نامی کسی من پسند شخص کو پی ٹی آئی پنجاب کے کسان ونگ کا سربراہ بنایا گیا ہے جنہوں نے ماسوائے چند اخباری بیانات کے عملی طور پر ایسا کوئی ایونٹ منعقد نہیں کیا جس کی بناء پر یہ کہا جا سکے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کا کوئی کسان ونگ زراعت اور کسان کی ترقی کیلئے فعال ہے۔ اسی طرح وفاق اور پنجاب میں حکمرانی کرنے والی مسلم لیگ(ن) نے بھی اپنے کسان ونگ کو راندہ درگاہ قرار دے رکھا ہے ۔گزشتہ کئی سالوں سے مسلم لیگ(ن) کسان ونگ کا مرکزی صدر ہی موجود نہیں ہے ۔ پنجاب میں صوبائی صدر کی ذمہ داری میجر(ر) ذوالفقار کو دی گئی ہے لیکن پارٹی کی جانب سے عدم تعاون اور عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ بھی مایوس ہو کر پیچھے ہٹ چکے ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) نے بھی تنظیمی سطح پر کسان ونگ کے پلیٹ فارم سے کبھی کوئی بڑا ایونٹ نہیں کیا ہے ۔ چاروں صوبوں کی زنجیر اور وفاق کی علامت کہلوانے والی پیپلز پارٹی کے کسان ونگ کا تو یہ عالم ہے کہ ان کے اہم رہنماوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کسان ونگ ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو اس کا سربراہ کون ہے۔ نیم سیاسی مذہبی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی کا’’کسان بورڈ‘‘ ماضی میں بہت متحرک ہوا کرتا تھا اور ملک بھر میں اس کی سرگرمیاں بہت واضح دکھائی دیا کرتی تھیں مگر پھر جیسے ہی اس کے دو اہم عہدیدار منظر سے ہٹے تو یہ ونگ محض’’پریس ریلیز بورڈ‘‘بن کر رہ گیا۔ موجودہ مرکزی صدر کسان بورڈ سردار ظفر صرف چوہدری منظور کی جانب سے بھیجی گئی پریس ریلیز میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستانی زراعت کا المیہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی فرد واحد صرف میڈیا میں اپنے روابط کی وجہ سے ملک کا سب سے بڑا زرعی رہنما قرار دے دیتا ہے اورپھر حکومتی کمیٹیوں میں شامل ہو کر یا پھر زرعی کمپنیوں کو لبھا یا ڈرا کر فوائد حاصل کرتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں سبزیوں کی قلت اور ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا شور مچا ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی اس حوالے سے کئی اجلاس منعقد کر چکے ہیں۔ایسا ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے کہ زراعت کی موجودہ زبوں حالی فقط سیاست کی وجہ سے ہے ،اس کی بہت سی دیگر وجوہات بھی ہیں جن میں زرعی لوازمات کی قیمتوں میں اضافہ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پیدا کردہ رکاوٹیں، بجلی اور ڈیزل کی کمیابی اور مہنگائی، جدید زرعی ٹیکنالوجی سے دوری، نہری پانی کی قلت، دیہات میں شرح خواندگی کی کمزور شرح وغیرہ شامل ہیں مگر یہ سب مسائل بھی حکمرانوں نے ہی حل کرنا ہوتے ہیں جس کیلئے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم پالیسیاں درکار ہیں ۔دو روز قبل میاں شہبازشریف نے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن میں ملوث مارکیٹ کمیٹیوںکے چیئرمینوں کو فی الفور عہدوں سے ہٹایا جائے۔ مارکیٹ کمیٹیوں کو مزید فعال بنانے کے حوالے سے مجوزہ مسودہ قانون کیلئے کابینہ کمیٹی اس ضمن میں مسودہ قانون کا جائزہ لے کر حتمی رپورٹ پیش کرے ۔ محکمہ زراعت سبزیوں اور دالوں کی پیداوار میں اضافے اور کاشتکاروں کو سہولتیں دینے کے حوالے سے جامع پلان مرتب کر کے پیش کرے جو کہ مستقبل کی ضروریات کا مکمل احاطہ کرتا ہو اورٹنل فارمنگ کے منصوبے پر عملدرآمد کے لئے حکمت عملی تیار کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ آف سیزن میں سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کا منصوبہ بھی تیار کیا جائے اور اس ضمن میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ میاں صاحب نے مارکیٹ کمیٹیوں کو سیاست سے پاک کردیا تو یقینی طور پر زراعت اور کسان دونوں کو فائدہ ہوگا مگر اس کے ساتھ ساتھ زراعت کی ترقی کیلئے کچھ زیادہ بڑے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کو بھی دیہی علاقوں میں اپنا ووٹ بنک مضبوط بنانے کیلئے کسانوں سے رابطہ بڑھانا ہوگا۔ حیرت ہے کہ تحریک انصاف میں جمشید اقبال چیمہ جیسے لوگ موجود ہیں جن کا کسانوں سے کئی سالوں کا رابطہ ہے،ملک بھر میں نیٹ ورک موجود ہے مگر پارٹی نے اپنے کسان ونگ کو مرکزی سطح پر متحرک کرنے کیلئے کبھی ان سے استفادہ ہی نہیں کیا۔ اعجاز چوہدری، عبدالعلیم خان، میاں محمود الرشید کو ایسے نام عمران خان کے سامنے پیش کرنا چاہئیں۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ دیہات میں زیادہ مضبوط ہے تو پھر یہ پارٹی اپنے کسانوں سے دور کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں نے زراعت اور کسان کو نظر انداز کرنے کی روش کو تبدیل نہ کیا تو آئندہ انتخابات میں دیہی علاقوں کے نتائج بہت بڑا اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔

News Source: Express News

No comments:

Post a Comment